کینیڈا میں آئندہ انتخابات اور مسلم کمیونٹی: ٹرمپ کی ممکنہ صدارت کے تناظر میں
کینیڈا میں 2025 میں ہونے والے وفاقی انتخابات ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتے ہیں، خاص طور پر مسلم کمیونٹی کے لیے جو اس ملک میں نہ صرف تیزی سے بڑھ رہی ہے بلکہ سیاسی طور پر بھی زیادہ متحرک ہو رہی ہے۔ اسی دوران امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی ممکنہ واپسی عالمی سطح پر مسلم کمیونٹیز میں خدشات اور سوالات کو جنم دے رہی ہے۔ ٹرمپ کی پچھلی صدارت کے دوران مسلمانوں کے خلاف متنازعہ بیانات، پالیسیز اور سفری پابندیوں نے دنیا بھر میں ایک خاص عدم تحفظ کا ماحول پیدا کیا تھا، جس کے اثرات کینیڈا میں بسنے والے مسلمانوں پر بھی پڑے۔
اب، جب کہ ایک طرف امریکہ میں ٹرمپ کی سیاست دوبارہ زور پکڑ رہی ہے اور دوسری طرف کینیڈا میں انتخابی مہم کی تیاریاں جاری ہیں، یہ ضروری ہو گیا ہے کہ ہم جائزہ لیں کہ ان دونوں عناصر کا کینیڈا کی مسلم کمیونٹی پر کیا اثر پڑ سکتا ہے۔
مسلم کمیونٹی: ایک ابھرتی ہوئی قوت
کینیڈا میں مسلم کمیونٹی ملک کی تیزی سے بڑھتی ہوئی اقلیتوں میں شامل ہے۔ مختلف شہروں جیسے ٹورنٹو، ملٹن، مسی ساگا، کیلگری اور وینکوور میں مسلمانوں کی خاصی بڑی آبادی ہے، جو تعلیم، صحت، ٹیکنالوجی، اور کاروبار جیسے شعبوں میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔
مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے ساتھ ساتھ ان کی سیاسی شمولیت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ پچھلے انتخابات میں مسلم ووٹرز کی ایک بڑی تعداد نے ووٹ ڈالا، اور متعدد مسلم امیدوار مختلف سیاسی جماعتوں سے انتخابی میدان میں اترے۔ اب جبکہ امریکہ میں مسلمانوں کے خلاف بیانیہ دوبارہ ابھرنے کا خدشہ ہے، کینیڈا کے مسلمان پہلے سے زیادہ چوکس، باخبر اور متحرک نظر آ رہے ہیں۔
ٹرمپ کی سیاست اور مسلم خوف
ڈونلڈ ٹرمپ کی پچھلی صدارت کے دوران مسلمانوں کو جن پالیسیز کا سامنا کرنا پڑا، ان میں سب سے نمایاں “مسلم بین” تھی — ایک ایسا فرمان جس کے تحت کئی مسلم اکثریتی ممالک کے شہریوں پر امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ اس کے علاوہ، مسلمانوں کو دہشتگردی سے جوڑنے کے متعدد بیانات نے مسلم کمیونٹیز میں گہری تشویش پیدا کی۔
اگر ٹرمپ دوبارہ امریکہ کے صدر منتخب ہو جاتے ہیں تو یہ خدشہ موجود ہے کہ وہ پہلے سے بھی زیادہ سخت پالیسیاں نافذ کریں گے۔ اگرچہ کینیڈا ایک خودمختار ملک ہے، مگر اس کا امریکہ سے گہرا سیاسی، معاشی اور سیکیورٹی تعلق ہے۔ ایسے میں امریکہ کی مسلم مخالف پالیسیاں کینیڈین فضا کو بھی متاثر کر سکتی ہیں — چاہے وہ امیگریشن پالیسی ہو، بین الاقوامی تعلقات، یا مسلمانوں کے لیے معاشرتی قبولیت کا مسئلہ۔
کینیڈا کی سیاسی جماعتوں کی پوزیشن
کینیڈا کی تین بڑی سیاسی جماعتیں — لبرلز، کنزرویٹو اور نیو ڈیموکریٹک پارٹی (NDP) — مسلم کمیونٹی سے مختلف انداز میں مخاطب ہوتی رہی ہیں۔ لبرل پارٹی نے تاریخی طور پر امیگریشن پالیسیوں میں نرمی، پناہ گزینوں کو خوش آمدید کہنے اور مذہبی آزادیوں کے تحفظ کی بات کی ہے۔ لیکن حالیہ برسوں میں فلسطین کے مسئلے، اسلاموفوبیا پر مبہم ردعمل، اور بعض قانون سازی جیسے Bill 21 پر خاموشی نے مسلم ووٹرز میں سوالات کو جنم دیا ہے۔
NDP نسبتاً زیادہ فعال نظر آتی ہے، خاص طور پر اسلاموفوبیا، نسلی امتیاز، اور فلسطینیوں کے حقوق پر کھل کر بات کرنے کے حوالے سے۔ مسلم کمیونٹی کے بہت سے نوجوان اس پارٹی کو متبادل کے طور پر دیکھتے ہیں۔
دوسری جانب، کنزرویٹو پارٹی کا ووٹ بینک عام طور پر روایتی اور بعض اوقات متنازعہ پالیسیوں کی طرف مائل رہا ہے، جس کے باعث مسلمانوں میں اس پارٹی پر اعتماد محدود رہا ہے۔
مسلم ووٹرز کی بڑھتی ہوئی اہمیت
کینیڈا میں کئی ایسے انتخابی حلقے ہیں جہاں مسلم ووٹرز کی تعداد فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے۔ ان حلقوں میں مسلم ووٹ کسی بھی جماعت کے لیے الیکشن جیتنے یا ہارنے کا سبب بن سکتا ہے۔ ایسے میں یہ ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں مسلم کمیونٹی کے مسائل کو سنجیدگی سے لیں، ان سے مکالمہ کریں، اور ان کے خدشات کا حل پیش کریں۔
مسلمان ووٹرز اب صرف امیگریشن یا مذہبی آزادی جیسے مسائل پر ووٹ نہیں دیتے، بلکہ معیشت، ماحول، صحت، تعلیم، اور عالمی انصاف جیسے موضوعات پر بھی ان کی دلچسپی بڑھ چکی ہے۔ خاص طور پر نوجوان مسلم ووٹرز سوشل جسٹس، ماحولیاتی تبدیلی، اور بین الاقوامی انسانی حقوق جیسے مسائل کو بھی اہمیت دیتے ہیں۔
ٹرمپ کی واپسی کا ممکنہ اثر: ایک “سائیڈ ایفیکٹ”
اگر ٹرمپ دوبارہ صدر بن جاتے ہیں، تو اس کے اثرات کئی طریقوں سے کینیڈا پر مرتب ہو سکتے ہیں:
1. امیگریشن پالیسی پر دباؤ: امریکہ اگر مسلمانوں کے لیے امیگریشن سخت کر دیتا ہے تو کینیڈا پر دباؤ بڑھے گا کہ وہ مزید مسلم پناہ گزینوں کو جگہ دے۔
2. اسلاموفوبیا کے رجحانات امریکی بیانیہ اکثر کینیڈین سوشل میڈیا اور عام فضا کو متاثر کرتا ہے۔ ٹرمپ جیسے بیانات سے نفرت انگیز جرائم میں اضافے کا خدشہ ہو سکتا ہے۔
3. بین الاقوامی پالیسی میں چیلنجز ٹرمپ کی پالیسی اسرائیل یا دیگر بین الاقوامی تنازعات پر سخت اور یکطرفہ ہو سکتی ہے، جس سے کینیڈا کی پوزیشن مشکل میں آ سکتی ہے، خاص طور پر اگر مسلم ووٹرز کسی متوازن موقف کی توقع رکھتے ہوں۔
نتیجہ: بیداری، شرکت اور قیادت کی ضرورت
کینیڈا میں آئندہ انتخابات مسلم کمیونٹی کے لیے نہایت اہم ہیں— نہ صرف اس لیے کہ وہ بطور ووٹر ایک اہم قوت ہیں، بلکہ اس لیے بھی کہ وہ اب سیاسی گفتگو کا لازمی حصہ بن چکے ہیں۔
ٹرمپ کی ممکنہ واپسی، اسلاموفوبیا کے بڑھتے رجحانات، اور عالمی سیاست میں مسلمانوں کے خلاف بیانیے کو دیکھتے ہوئے، کینیڈین مسلم کمیونٹی کو چاہیے کہ وہ نہ صرف اپنے ووٹ کا مؤثر استعمال کرے بلکہ اپنی نمائندگی کو مضبوط کرے، سیاسی شعور کو فروغ دے، اور بین المذاہب و بین الثقافتی مکالمے کو تقویت دے۔
انتخابات محض کسی پارٹی کو اقتدار دلوانے کا عمل نہیں، بلکہ یہ اس بات کا اظہار ہیں کہ ایک کمیونٹی کس طرح اپنے مستقبل کو متعین کرنا چاہتی ہے۔ اب وقت ہے کہ مسلم کمیونٹی اپنی آواز کو مزید بلند کرے — باوقار، باخبر اور متحد ہو کر۔